Advertisement

A Straightforward Speech With A Reality --- By Ehsan Sehgal

A Straightforward Speech With A Reality --- By Ehsan Sehgal A Straightforward Speech With A Reality --- By famous poet, author, journalist, and philosopher, Ehsan Sehgal
Recorded on 10 November 2019, 5.00 pm, The Hague, Netherlands.

اسلام علیکم و رحمتہ اللہ
پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دشمنوں اور اغیار سے نہیں، اپنے ہی تہذیبی، فکری، اخلاقی، مذہبی، ادبی و نشریاتی اور سیاسی اہل کاروں، بلکہ جاہل کاروں اور ناعاقبت اندیش سیاسی رہنماؤں اور مسلح مافیہ گٹھ جوڑ کے غیر آئینی رویے اور سازشی کردار سے نہ صرف بے آبرو ہے بلکہ ہر زویئے سے بنجر پن کی دہلیز پر بھی پہنچ چکی ہے، اور ایک بنجر ریاست کچھ بھی نہیں کر سکتی- طرہ اس پر یہ کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس زہریلی فضا کا احساس نہیں اور نہ ہی کوئی اسے محسوس کرنے کا روا دار نظر آتا ہے۔
حزب اختلاف کی تمام بڑی جماعتوں کا 2018 کے انتخابات میں تاریخ ساز اور شرمناک دھاندلی پر ایک آواز ہونا، ووٹ کی نہ صرف حرمت کا احیا ہے بلکہ اس کی طاقت کے اطلاق کی طرف مثبت اقدام بھی ہے-کیونکہ پہلے سے طے شدہ نتائج میں منظور نظر اور نامزد مہروں نے کامیابی چھین کر اہل جمہور کی پوشاک اوڑھ کر ریاست مدینہ کی حرمت پر اپنی مسروقہ امیری کو حلال کروا لیا، خیال بھی جعلی اور کمال بھی بے مثالی۔
مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنماؤں کی الولعزمی اور آئینی اقدار کی بالا دستی کو باوقار اور تمام اداروں کو اس کے ماتحت کرنے کی پیش رفت اگر حقیقی جذبے پر مبنی ہے تو یہ نئی تاریخ کی طرف ایک مضبوط اور مثبت لائحہ عمل ہے، اگر یہ تحریک عوامی حقوق اور آئینی نفاذ کو سرخرو کرنے میں جیت سے ہمکنار ہوتی ہے تو ریاست پاکستان میں اندرونی اور بیرونی دشمن اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے۔
ریاست پاکستان کا دفاع، آئین کی روح کے مطابق کبھی نہیں ہوا، سوائے، دل بہلانے کو اجلاس سجتے رہے اور خبریں چھپتی رہیں، پس پردہ مسلح مافیہ کی قانونی، جمہوری، آئینی، حفاظتی اور عدالتی بے ہودگیاں جھلکتی رہیں۔ عوام کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں چھلکتی رہیں۔
ایک پیج پر ہونے کی اصطلاح کسی بھی زویئے سے نہ جمہوری اور آئینی اقدار کی حامل ہے اور نہ ہی آئین کی حقیقی تشریح ہے۔ ہر ادارہ آئین کے ماتحت ہوتا ہے اور آئین کی طاقت ایوان نمائیندگان ہوتا ہے، اس صورت میں اداروں کا ایک پیج پرہونا، چہ معنی دارد؟ - یہ اصطلاح جمہوریت کی عیارانہ نفی ہے۔ ادارے ماتحت اور زیر حکم ہوتے ہیں، ساتھ ہونے، دینے کی بیان بازی ماتحت ہونے سے انکار ہے، یہ شریک ہونے کی از خود دلیل ہے اور ستر سال سے اس پر دال بھی ہے۔ یقینا ریاست کا زوال بھی یہی ہے، ایک زوال گزر چکا ہے اور دوسرے سے قبل اپنے جمہوری اور منتخب اداروں کے ماتحت ہونا، دانشمندانہ اور حب الوطنی پر مبنی طرز عمل ہو گا۔
چالیس سال قبل قادیانی جرنیلوں کی امان میں آئینی، اخلاقی، اسلامی اور انسانی قاتل جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو انسانیت سوز رویئے کے بعد نہ صرف عدالتی قتل کرایا بلکہ ریاست کو سازشوں اور دہشت گردی کی آگ میں بھی جھونک دیا، ضیا الحق نے بھی سیاسی طالع آزماؤں کو ایک پیج پر نتھی کر دیا تھا۔
جب ادارے ایسا آئینی مذاق کرتے ہیں کہ جیسے وہ آئینی کردار ادا کر رہے ہیں اور جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں تو ہمیں اس مذاق پر ہنسی نہیں آتی بلکہ شرمندگی ڈسنے لگتی ہے کہ ایوب سے مشرف تک کا کردار آئینی مذاق تھا یا آئین کے مطابق حلف سے وفاداری تھی، سب سے بدترین جرم مشرف اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے کیا، منتخب وزیر اعظم کی غیر قانونی معزولی و گرفتاری، وزیراعظم ہاؤس پر مجرمانہ دھاوہ ، وزیراعظم کے مقرر کردہ چیف آف آرمی اسٹاف کو مسترد اور گرفتار کرنا اور ایک برطرف جنرل کو صدر پاکستان کے منصب پر فائز کرنا، آئین پاکستان کی پاسداری اور ریاست سے وفاداری کا یہی کردار ہے تو غداری اور ریاست سے بغاوت کی دوسری کون سی وضاحت ہے، یا اور کیا سیاق و سباق ہے؟ -
Click to read -

Media News,

Post a Comment

0 Comments